Sunday 4 September 2011

کراچی: مبینہ ڈاکو پر حزب اللہ پاراچنار کا کارکن ہونےکا الزام

حکومت دہشت گردوں کے نقش پا مٹانے کے لئے سرگرم؛ عابد بنگش نامی مبینہ ڈاکو پر حزب اللہ پاراچنار کا کارکن ہونےکا الزام۔

آج تک اہل تشیع کے خون کے دریا بہانے والوں خاص طور پر بدھ اور جمعرات کو کوئٹہ اور پاراچنار میں دہشت گردوں کی سفاکانہ کاروائیوں میں ملوث افراد کو ڈھونڈ نکال کر گرفتاری سے شانہ خالی کرتے ہوئے حکومت نے کراچی میں مبینہ ڈکیتی کے دوران گرفتار ہونے والے عابد بنگش نامی نوجوان کو گرفتار کرلیا ہے اور ایس ایس پی سی آئی ڈی کراچی نے شرمناک دعوی کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ شخص پاراچنار میں حزب اللہ نامی گروپ کو مدد فراہم کرنے کے لئے ڈکیتیاں کررہا تھا!!!۔
ایک پاراچناری نوجوان نے سوشل نیٹ ورک پر اپنے پیغام میں سی آئی ڈی کراچی کے اس شرمناک اقدام پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے: 
ظلم بھی ہم پر اور اسیر بھی ہم؟ یہ کہاں کا انصاف ہے؟حکومت ہزاروں شیعوں کے قتل میں ملوث جماعتیں سپاہ صحابہ لشکر جھنگوی اور طالبان وغیرہ کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کرتی؟ان کو کھلی چھوٹ کیوں؟
دوسرے نوجوان نے لکھا ہے:
یہ گورنمنٹ کے ناکارہ کارندے ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی میں ملوث دہشت گردوں کو گرفتار نہیں کرسکتے اب کراچی کا امن درست کرنے کی بجائے پاراچنار کو نشانہ بنانے لگے ہیں۔ یہ سارا کھیل گورنمنٹ کا ہی ہے تا کہ کسی طرح پاراچنار کے لوگوں کو مزید تنگ کرسکے۔ ہمارے دوہزار سے زائد شہیدوں کے قتل کی ذمہ دار بھی حکومت پاکستان ہی ہے۔
تیسرے نے لکھا:
آج دنیا کا سب سے بڑا یزید گورنمنٹ آف پاکستان ہے۔ بہت بہت شرم کی بات ہے حکومت پاکستان کے لئے۔
چوتھے نے لکھا:
یہ حکومت کا نیا ڈھونگ ہے۔ کچھ روز پہلے سینٹر رشید نے ایک بیان دیا تھا کہ کراچی میں ساری وارداتیں پاراچنار کے شیعہ کررہے ہیں اور آج گورنمنٹ نے یہ ڈرامہ رچا کر پاراچنار کے محب وطن اور معصوم عوام کو دہشت گرد ٹہرانے کی کوشش کی ہے تاکہ خونخوار دہشت گردوں کی بجائے پاراچنار کے مظلوم عوام کے خلاف فوجی آپریشن کا بنا سکے۔
بہر صورت اب زمانہ بدل گیا ہے اور لوگ جاننے لگے ہیں کہ حکومت کی باتوں کے حقیقت کے بارے میں تحقیق کی ضرورت ہے۔ ہم نے گذشتہ ساڑھے چار سال سے پاراچنار پر پرو آئی ایس آئی طالبان کے حملوں کی خبریں دیکھی ہیں اور ہمیں یہ نہیں معلوم ہوسکا ہے کہ پاراچنار میں کوئی حزب اللہ نامی گروپ بھی ہے اور فرض کریں کہ اگر پاراچناریوں نے  حزب اللہ تشکیل دی بھی ہو تو وہ اس کے تقدس سے بھی آگاہ ہیں اور وہ سماج دشمن عناصر سے تشکیل یافتہ کالعدم دہشت گرد ٹولوں کی تقلید کرکے اپنی حیات کو دوام دینے کے لئے ڈکیتیوں کا سہارا نہیں لیتے۔ 
عجیب بات تو یہ ہے کہ ہزاروں کیس پولیس کے پاس ہیں ہزاروں پر امن پاکستانی شہری مارے گئے ہیں اور جو ادارہ حکومت کہلاتا ہے اس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اپنے شہریوں کو تحفظ دے اور اگر تحفظ نہ دے سکے تو وہ حکومت نہیں ہے اور حکومت کہلوانے کا حق نہیں رکھتی؛ اس حکومت نے ان تمام کیسوں سے رائے عامہ کو منحرف کرنے کے لئے حزب اللہ پاراچنار کے نام پر شوشہ چھوڑا ہے۔ اب ایس ایس پی سے کوئی پوچھے کہ رمضان کے مہینے میں کراچی میں سینکڑوں شہری مارے گئے ہیں کیا ان کے قاتلوں کو گرفتار کرنے کے لئے نکل کر انہيں عابد بنگش نامی شخص مل گیا جس کا تعلق پاراچنار سے ہے! کیا انہیں کوئی قاتل نہیں ملا؟ 
ذوالفقار مرزا نے انکشافات کئے اور اجمل پہاڑی کے بارے میں سب کچھ بتا دیا اور واضح کیا کہ سانحۂ عاشورا اور اس کے بعد مارکیٹوں کو نذر آتش کرنے میں ایم کیو ایم نے ملوث ہے جبکہ کراچی پولیس نے اس وقت بھی شیعہ بچوں کو پکڑا تھا اور کہا تھا کہ ان کو کیمروں کی مدد سے پہچانا گیا ہے، سوال یہ کہ ایس ایس پی سی آئی ڈی نے کیا مرزا صاحب کے انکشافات کے بعد سانحہ کراچی کے مجرمین کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے عابد بنگش کو پکڑ لیا؟ اب جبکہ سانحہ عاشورا کا کیس اور اس  میں ایم کیو ایم کا ہاتھ واضح ہوگیا ہے تو اس کے خلاف کاروائی کرنے کی بجائے پاراچنار کو بدنام کرنے کی ضرورت کیوں پڑي؟ کیا حکومت کے حمایت یافتہ طالبان پاراچنار کا محاصرہ نہیں کئے بیٹھے؟ اس یے باوجود کیا پاراچنار وہ واحد قبائلی شہر نہیں ہے جہاں حکومت پاکستان کے تمام ادارے اور تمام اہلکار کسی بھی خطرے کا سامنا کئے بغیر منظر عام پر آتے ہيں اور گھومتے پھرتے ہیں؟ کیا پاراچنار میں عید کے دوسرے دن 7 افراد کو ان ہی طالبان یعنی حقانی نیٹ ورک نے شہید نہیں کیا؟ کیا حقانی نیٹ ورک کے قاتلوں کو گرقتار کرنے کی بجائے حکومت بھی اعلانیہ طور پر پاراچنار کے مد مقابل آنا چاہتی ہے؟ کیا پاراچنار کو مزید المیوں کے لئے تیار رہنے کی ضرورت ہے؟ اور ہزاروں لاجواب سوال اور ۔۔۔

No comments:

Post a Comment